خون دینا کیسا

خون دینا: جائز و ناجائز کی شرعی رہنمائی


(اسلام کی روشنی میں ایک جامع و حسین فتویٰ)



---


سوال:

کیا کسی انسان کو خون دینا شرعاً جائز ہے؟ شریعت کے مطابق کون سی صورتیں درست ہیں اور کون سی منع کی گئی ہیں؟



---


نقوشِ شریعت: خون دینا – ایک امانت، ایک خدمت


اسلام ہمیں انسانیت کی فلاح، ایک دوسرے کی مدد، اور جان بچانے کی تلقین کرتا ہے۔ خون دینا ایک ایسا عمل ہے جو بظاہر طبی (Medical) ہے، مگر اس کی بنیاد ایک عظیم دینی اصول پر ہے:


"وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا"

(سورۃ المائدہ: 32)

ترجمہ: "جس نے ایک جان کو بچایا، گویا اس نے پوری انسانیت کو زندگی بخشی۔"



---


جائز صورتیں: نورِ شریعت کے مطابق


1. جان بچانے کی ضرورت ہو:

جب کسی مریض کی زندگی کا انحصار خون پر ہو، اور خون نہ ملنے کی صورت میں موت یا شدید ضرر متوقع ہو — تو ایسی حالت میں خون دینا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا ذریعہ ہے۔


2. خون بغیر قیمت کے دیا جائے:

خالص نیت، ہمدردی، اور خیرخواہی کے جذبے سے خون دینا جائز و مستحسن ہے۔


3. خون دینے والے کو ضرر نہ ہو:

اگر خون دینے سے دینے والے کی صحت پر کوئی سنگین اثر نہ ہو، تو یہ عمل شرعاً درست ہے۔


4. مکمل رضامندی کے ساتھ ہو:

کسی دباؤ یا جبر کے بغیر، اپنی خوشی سے خون دینا۔



---


ناجائز صورتیں: حدودِ شریعت کی پامالی


1. خون بیچنا (پیسے لے کر دینا):

اسلام میں انسانی جسم کی ملکیت انسان کو نہیں، بلکہ وہ اللہ کی امانت ہے۔ اس لیے خون بیچنا ناجائز و حرام ہے۔


2. خون دینے سے شدید نقصان کا اندیشہ ہو:

اگر خون دینے والے کو صحت کا خطرہ ہو، تو خون دینا شرعاً ممنوع ہے۔


3. غیر ضروری یا دکھاوے کے لیے دینا:

بغیر کسی حقیقی ضرورت کے، صرف سماجی شہرت یا نمائشی مقاصد کے تحت خون دینا پسندیدہ عمل نہیں۔


4. ناپاک یا مشکوک ذرائع سے خون لینا/دینا:

حرام، متنجس یا خطرناک ذرائع سے خون لینا دینا حرام ہے۔



---


فقہی خلاصہ:



---


چراغِ فتویٰ


"الإنسان ليس مالكًا لجسده، بل هو أمانة عنده."

ترجمہ: انسان اپنے جسم کا مالک نہیں بلکہ امانت دار ہے۔

(فقہی اصول)



---


واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مفتی ایم جے اکبری

دارالافتاء گلزارِ طیبہ، گجرات (بھارت)

تبصرے