حربی سے سود لینے کا حکم ؟
دارالافتاء گلزارِ طیبہ کی یہ علمی تحقیق نہایت دقیق، جامع اور بصیرت افروز ہے۔ اس میں جہاں امام ابو حنیفہؒ کے قول کا صحیح مفہوم واضح کیا گیا ہے، وہیں اس کے غلط استعمالات اور اس کے دینی، سماجی و بین الاقوامی مضمرات پر بھی مدلل کلام کیا گیا ہے۔
علمی و ادبی تاثرات:
1. محققانہ اسلوب:
تحقیق کی بنیاد قرآنی آیات، صحیح احادیث اور فقہاء کی معتبر تشریحات پر رکھی گئی ہے۔ علامہ ابن قدامہ، علامہ سعیدی، امام ابن ہمام، امام شافعی، سرخسی وغیرہ جیسے جلیل القدر علماء کے اقوال سے مزین یہ رسالہ اسلوبِ تحقیق کا عمدہ نمونہ ہے۔
2. فقہی توازن و اعتدال:
تحقیق میں نہ صرف مختلف اقوال کا ذکر کیا گیا بلکہ ان کا تجزیہ بھی علمی انداز میں کیا گیا ہے، جو قاری کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا اصل مدعا کیا تھا، اور بعد کے علماء نے ان کے قول کو کس حد تک محدود کیا ہے۔
3. دورِ حاضر کے تقاضے:
یہ تحقیق صرف نصوص کی بحث نہیں، بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک عملی رہنمائی بھی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں فتاویٰ کے غلط استعمال، اسلام کے بارے میں پھیلنے والی بدگمانیوں اور ہندوستان جیسے حساس ماحول میں فقہی جواز کے فتنوں کا تدارک نہایت حکمت سے کیا گیا ہے۔
4. دینی غیرت اور اخلاقی قیادت:
اس رسالے میں صرف مسئلہ کی شرعی حیثیت نہیں بیان کی گئی بلکہ مسلمانوں کی اخلاقی اور دینی قیادت کا جو تصور ہے، اسے بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ اسلام صرف قانونی حیلوں کا نام نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور سچے کردار کا دین ہے۔
5. علامہ سعیدیؒ کی تحقیقات کا نچوڑ:
تحقیق میں حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی بصیرت سے بھرپور تشریحات کو بار بار نقل کیا گیا ہے، جو اس کے علمی وزن میں کئی گنا اضافہ کرتی ہے۔
نتیجہ:
یہ تحقیق صرف ایک فقہی مسئلہ کا جواب نہیں بلکہ فقہی بصیرت، دینی حمیت، اخلاقی پختگی اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے وقت میں جب فتاویٰ کا غلط استعمال عام ہو چکا ہے، یہ تحریر امت کے اہلِ علم کے لیے بیداری کا پیغام ہے۔
تاثرات مولانا محمّد عارف صاحب کاریلا گجرات
دارالافتاء گلزارِ طیبہ کی جانب سے پیش کردہ یہ تفصیلی و محققانہ تحریر ایک نازک اور پیچیدہ فقہی مسئلہ کو نہایت گہرائی اور اعتدال کے ساتھ واضح کرتی ہے۔ اس پر چند علمی و ادبی تاثرات حسبِ ذیل ہیں:
علمی تاثرات:
1. فقہی دیانت اور تطبیقی بصیرت:
اس تحقیق میں صرف فقہی اقوال کا تقابل ہی نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی تطبیق اور موجودہ حالات پر ان کا اثر بھی مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے فتنوں اور فتاویٰ کے غلط استعمال پر توجہ دلا کر ایک بڑے دینی تقاضے کو پورا کیا گیا ہے۔
2. نصوصِ قطعیہ کی ترجیح:
قرآنِ کریم کی آیاتِ ربوا اور صحیح احادیث کو بنیاد بنا کر جو استدلال کیا گیا ہے، وہ اصولی وفقہی اعتبار سے نہایت مضبوط ہے۔ یہ انداز علمی ایمانت داری کی اعلیٰ مثال ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے قول پر بھی نقد کرتے ہوئے احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا۔
3. علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی آراء کی روشنی:
تحقیق میں علامہ سعیدیؒ کے تفصیلی اقتباسات کو مرکزی حوالہ بنا کر جو اصول اخذ کیے گئے ہیں، وہ تحقیق کے وقار اور قوتِ استدلال کو بڑھاتے ہیں۔ ان کی توجیہات نے قاری کو ہر پہلو سے مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔
4. سیاق و سباق کی رعایت:
"دارالحرب" کی جدید تعبیر، معاصر بین الاقوامی تعلقات، سفارتی روابط اور مسلمانوں کو حاصل آزادی جیسے پہلوؤں کا تذکرہ کر کے فتویٰ نویسی میں سیاق و سباق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ معاصر فقہ نگاری کی عمدہ مثال ہے۔
ادبی تاثرات:
1. اسلوب میں وقار و سلاست:
تحریر کا انداز نہایت متین، سنجیدہ اور باوقار ہے۔ پیچیدہ فقہی مباحث کو سادہ مگر علمی زبان میں بیان کیا گیا ہے، جو خواص و عوام دونوں کے لیے مفید ہے۔
2. اخلاقی پیغام کی روشنی:
محض فنی دلائل پر اکتفا نہ کر کے اخلاق و کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنا، امت کو ایک عملی راستہ دکھانا ہے۔ خاص طور پر یہ جملہ کہ "اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں تلوار اور جہاد سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باکمال سیرت کا حصہ ہے" – دلوں پر اثر کرنے والا ہے۔
3. زمانہ شناس بصیرت:
ہندوستان جیسے حساس ماحول میں غیرمسلموں کے ساتھ معاملات کے شرعی حدود واضح کرنا، اور فتویٰ کے اثرات کو دیکھ کر موقف میں تبدیلی کو اپنانا، ایک زندہ، دوراندیش اور فکری دارالافتاء کی علامت ہے۔
خلاصہ:
یہ تحقیق روایتی فقہ اور معاصر تقاضوں کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں نہ صرف نصوص کا احترام ہے، بلکہ عصری دانش، علمی جرأت، اخلاقی رہنمائی، اور دعوتی بصیرت بھی نمایاں ہے۔ دارالافتاء گلزار طیبہ اور مفتی ایم جے اکبری صاحب واقعی طور پر قابلِ تحسین ہیں کہ انہوں نے امت کو ایک واضح، متوازن اور قابلِ عمل موقف عطا کیا۔
مولانا علی بخش صاحب اکبری خادم دارالافتاء گلزار طیبہ کی قلم سے
دارالافتاء گلزارِ طیبہ کے مفتی ایم جے اکبری صاحب کی یہ تحقیق نہایت ہی روشن، مدلل اور بصیرت افروز ہے۔ فقیر کی جانب سے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرنا اور حالاتِ زمانہ کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایک متوازن اور حکمت پر مبنی رائے اختیار کرنا ان کی علمی دیانت، تقویٰ اور امت کے لیے فکر مندی کا واضح ثبوت ہے۔
اس تحقیق کے چند نمایاں پہلو جو اسے دلنشین اور قابلِ قدر بناتے ہیں:
* جامعیت اور استدلال: مفتی صاحب نے جمہور فقہاء کے نظریے کو علامہ ابن قدامہ حنبلی اور دیگر ائمہ کے اقوال کے ساتھ مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں حنفیہ کے بعض اقوال اور ان کے دلائل کا تفصیلی اور علمی تجزیہ کیا ہے۔
* علامہ سعیدیؒ کی تحقیق کا حوالہ: علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تحقیق کو بنیاد بنانا عصرِ حاضر کے فتنوں اور غلط فہمیوں کے سدِ باب کے لیے ایک بہترین اقدام ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ اور اس کے دلائل کو واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
* قرآن و سنت کی روشنی: پوری بحث قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں کی گئی ہے، جو اس کی شرعی حیثیت کو مضبوط بناتی ہے۔
* حالاتِ حاضرہ کا ادراک: مفتی صاحب نے سوشل میڈیا کے دور میں غلط فہمیوں کے پھیلنے اور ہندوستان کے موجودہ حالات کا جس حساسیت سے ذکر کیا ہے، وہ ان کی دور اندیشی اور امت کے لیے حقیقی درد مندی کو ظاہر کرتا ہے۔
* فقہی اصطلاحات کی وضاحت: دارالحرب، دارالکفر اور دارالاسلام کی واضح اور جامع تعریفات بیان کرنا قاری کے لیے مسئلے کو سمجھنا آسان بناتا ہے۔
* رجوع کا اعلان: اپنے سابقہ فتویٰ سے رجوع کا واضح اور باادبانہ اعلان کرنا ایک عالم دین کی عظمت اور حق کی طرف لوٹنے کی جرات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل دیگر اہل علم کے لیے بھی ایک مثال ہے۔
* حکمت اور مصلحت کا پہلو: فتویٰ میں حکمت اور مصلحت کے پہلو کو مدنظر رکھنا اور اس بات پر زور دینا کہ موجودہ حالات میں جواز کا فتویٰ دعوتِ اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، انتہائی اہم اور قابلِ ستائش ہے۔
* زبان و بیان: اگرچہ یہ ایک علمی بحث ہے، لیکن زبان کا انداز واضح اور عام فہم ہے، جو اسے زیادہ لوگوں تک پہنچنے اور سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مختصر یہ کہ دارالافتاء گلزارِ طیبہ کی جانب سے پیش کردہ یہ تحقیق علمی اعتبار سے مضبوط، استدلالی لحاظ سے پختہ، اور حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں انتہائی اہم اور بروقت ہے۔ مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ رجوع اور یہ مفصل بحث یقیناً بہت سے لوگوں کے لیے رہنمائی کا باعث بنے گی اور اس حساس مسئلے پر درست موقف اختیار کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور امت کو اس سے فائدہ پہنچائے۔
حربی سے سودی معاملات کرنا اور عقود فاسدہ کے زرعیے مال کے جواز پر اکثر علماء کرام نے فتوی دیا ہے خود فقیر بھی اس تحقیق سے پہلے جواز کا قائل تھا مگر دارالافتاء میں کچھ سوالات ایسے بھی آئے جو کہ اس جواز کے فتوی کا غلط استعمال ہوتا تھا پھر سوشل مڈیا کے دور میں اس طرح کے فتوی سے غیر مسلموں میں غلط فہمیاں پیدا ہو رہی تھی اور اس وقت ہمارے ملک میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب جانتے ہے لہاذا دارالافتاء گلزار طیبہ کی جانب سے یہ روشن تحقیق پیش کی جاتی ہے
دارالحرب کے سود میں جمہور فقہا کا نظریہ علامہ ابن قدامہ حنمبلی فرماتےہے دارالحرب میں سود اسی طرح حرام ہے جس طرح دارال اسلام میں سود حرام ہے امام احمد امام مالک امام اوزاعی امام ابو یسف امام شافعی اور اسحاق کا بھی یہی مزہب ہے امام ابو حنیفہ نے کہا کہ مسلمان اور حربی کے درمیان دارالحرب میں ربا جاری نہیں ہوگا اور ان سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ دو شخص دارالحرب میں مسلمان ہو گئے توان کے درمیان ربا (سود) نہیں ہوگا اور ان کے اموال مباح ہیں علامہ غلام رسول سعیدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے امام ابو حنفیہ کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو دارالحرب میں احکام شرعیہ نافز کرنے کی ولایت حاصل نہیں ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ دارالحرب میں مسلمانوں کا سود کھانا جائز ہے (شرح صحیح مسلم جلد چارہم صفہ ۳۸۳) علامہ ابن قدامہ حنمبلی لکھتے ہیں ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا حرم الربوا (سورہ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالی نے سود کو حرام کر دیا ؛” اور اللہ تعالی نے فرمایا اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-(سورہ البقرہ ۲۷۵) جو لوگ سود کھاتے پیں وہ (قیامت کے دن ) نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا وہ شخص جسے شیطان نے مخبطوالحواس کر دیا ) نیز فرمایا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا(سورہ ابقرہ ۲۷۸) اے ایمان والواللہ تعالی سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو ، ) احادیث میں بلعموم تفاضل کی ممانعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے زیادہ دیا زیادہ لیا اس نے سودی معاملہ کیا اس لئے کہ جو کام مسلمانوں پر دارل اسلام میں حرام ہیں وہ دارالحرب میں بھی حرام ہے جس طرح مسلمانوں میں سود کا لین دین حرام ہے اور امام ابو حنیفہ نے جس حدیث کا زکر کیا ہے وہ مرسل ہے جس کی صحت کا ہمیں علم نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں لا نفی کی بجائے نہی کے لیے ہو یعنی مسلمان درالحرب میں حربی سے سود نہ لیں اور جس چیز کو قرآن مجید نے علی العموم ولاطلاق حرام کر دیا ہےاور سنت مشہور سے بھی اس کی علی الاطلاق حرمت ثابت ہے اور اس کے حرام ہونے پر اجماع ہو چکا ہے اس کے عموم اور اطلاق کو ایسی خبر مجہول کے سبب سے ترک کر دینا جائز نہیں ہے جو کسی کتاب صحیح میں ہے نہ
مسند میں نہ کسی اور معتمد اور مسند کتاب میں ہےاور اس علاوہ یہ کہ وہ حدیث مرسل ہے اور یہ بھی احتمال ہےکہ اس میں لا نفی کا نہ ہو بلکہ نہی کا ہو جیسے اللہ تعالی کے اس قول میں ہے فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ(سورہ بقرہ ۱۹۷) ترجمہ حج میں جماع فسوق اور لڑائی جھگڑا نہیں ہے ) (الغنی ج ۴ ص ۴۷)
دارالحرب کے سود میں فقہاء احناف کا نظریہ
علامہ ابوالحسن لکھتے ہے مسلمان اور حربی کے مابین دارالحرب میں ربوا (سود) نہیں ہے اس میں امام ابو یسف اور امام شافعی رحمتہ علیہ کا اختلاف ہے وہ اس پر قیاس کرتے ہیں کہ حربی جب امان لے کر دارالاسلام میں آئے تو اس سے سود لینا جائز نہیں ہے اور ہماری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے مسلمان اور حربی کے مابین دارالحرب میں ربوا نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ دارالحرب میں ان کا مال مباح ہے خواہ مسلمان جس طریقہ سے ان کا مال حاصل کرے وہ مال مباح ہے بشطکیہ دھوکا نہ دے اور عہد شکنی نہ کرے اور مستامن پر قیاس کرنا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ جب وہ امان لے کر دارالاسلام میں داخل ہوا تو اس کے مال کا لینا ممنوع ہوگیا (ہدایہ اخرین ص ۸۴)
دارالحرب میں جواز ربوا والی حدیث کی فنی حیثیت ،
علامہ ذیلعمی حنفی لکھتے ہیں امام بیہقی نے امام شافعی کی کتاب السیر کے حوالے سے اس حدیث کو معرفتہ میں زکر کیا ہے امام شافعی نے کہا امام ابو یسف کہتے ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا بعض مشائخ نے مکحول سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل حرب کے مابین ربوا نہیں ہے میرا گمان ہے کہ آپ نے فمایا اور اہل اسلام کے مابین امام شافعی نے فرمایا یہ ثابت ہے نہ اس میں کوئی حجت ہے (نصب الرایہ ج ۴ ص ۴۴) علامہ ابن ہام نے بھی اس حدیث کی فنی حیثیت کے بارے میں یہی کچھ نقل کیا ہے (فتح القدیر )
دارالحرب میں ربوا کے متعلق فقہاء احناف کے دلائل کا تجزیہ ائمہ ثلاثہ اور امام ابو یوسف نے کہا ہے کہ مکحول کی روایت اول تو ثابت نہیں ہے اور بر تقدیر ثبوت اس میں قرآن مجید اور احادیث صحیحہ مشہور سے معارضہ کی صلاحیت نہیں ہے علامہ ابن ہمام نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ قرآن مجید نے جو ربوا کو مطلقا حرام کیا ہے وہ مال مخطور میں حرام کیا ہے اور حربی کا مال مباح ہے اور اس توجیہ کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کوئی مکحول کی یہ مرسل روایت نہ بھی ہوتی تب بھی دارالحرب میں حربی سے سود لینا مباح ہوتا (فتح القدیر ج ۶ ) علامہ غلام رسول سیعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے علامہ ابن ہمام کا یہ جواب اس لیے صحیح نہیں ہے کہ وہ وہ مال مخطور کی قید لگا کر اپنی رائے سے قرآن مجید کے عموم اور اطلاق کو مقید کر رہے ہیں اور جب قرآن مجید کے عموم قطعی کو حدیث رسول سے بھی مقید کرنا صحیح نہیں ہے تو رلامہ ابن ہمام کی رائے میں اتنی قوت کہاں کہ وہ قرآن مجید کے عموم اور اطلاق کے مزاحم ہو سکے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ مشہو نے علی الاطلاق سود کو حرام کر دیا ہے خواہ مسلمان سے سود لیا جائے یا کافر سے اور کافر خواہ حربی ہو یا زمی اور دارالاسلام میں سود لیا جائے یا دارالحرب میں قرآن مجید نے ہر قسم کے سود کو حرام کر دیا ہے اور اس عموم کو نہ مکحول کی مرسل اور غیر ثابت روایت سے مقید کیا جا سکتا ہے نہ علامہ ابن ہمام کی رائے سے (شرح صحیح مسلم جلد ۴ ص ۳۸۵)
(مکحول کی روایت محمل ) اگر یہ فرض کر لیاجائے کہ مکحول کی روایت صحیح ہے اور واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے لا ربوا بین المسلم و الحربی مسلمان اور حربی میں سود نہیں ہے تو اس حدیث کی حسب زیل توجیہات ہیں اول اس حدیث میں لا نفی کا نہیں ہے بلکہ نہی کا ہے اور اس کا معنی ہے مسلمان اور حربی کے مابین سود کی ممانعت ہے جیسا قرآن میں فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ (سورہ بقرہ ۱۹۷ ) حج میں جماع فسوق اور لڑائی جگھڑا نہیں ہے یعنی ان افعال کی ممانعت ہے
ثانی اس حدیث میں حربی سے مراد محض غیرزمی کافر نہیں ہے بلکہ برسر جنگ قوم کا ایک فرد مراد ہے اور جس قوم کے ساتھ حالت جنگ قائم ہو اس کو ہر طرح سے جانی اور مالی اعتبار سے زک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے اس قوم کے کسی حربی کافر سے اگر کسی مسلمان نے سودی معاملہ کے زریعے اس کا مال لے لیا تو وہ اس کا مالک ہو جائےگا
ثالث لا ربوا کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حربی کافر سے جو سود لیا جائے گا وہ سود نہیں ہے بلک اس کا مفہوم یہ ہے کہ دارالحرب میں رہنے والا مسلمان اگر حربی کافر سے سود لیتا ہے تو اگرچہ یہ فعل گناہ ہے لیکن قانون حرمت اور ممانعت سے مستنی ہے یعنی مسلمان حکومت اس شخص سے باز پرس نہیں کر سکتی کہ تم نے یہ عقد فاسد کیوں کیا ہے اور سود کیوں لیا ہے اور اس مسلمان کو اس کے اس غلط کام پر سزا نہیں دے سکتی کونکہ دارالحرب میں رہنے والا مسلمان مسلمانوں کی ولایت میں نہیں ہے اور اس پر اسلامی ریاست کے احکام جاری نہیں ہو سکتے اللہ تعالی فرماتا ہے -وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْاۚ ( انفال ۷۲) ترجمہ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام ) نہیں آئے ان پر تمہاری کوئی ولایت نہیں ہے حتی کہ وہ ہجرت کر لیں ) اس آیت میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ ولایت کا تعلق صرف ان مسلمانوں سے ہوگا جو دارالاسلام کے باثندے ہوں یہ آیت دارالاسلام سے باہر کے مسلمانوں کو (دنی اخوت کے باوجود ) دارالاسلام کے مسلمانوں کے ساتھ سیاسی اور تمدنی رشتے سے خارج کر دیتی ہے اس عدم ولایت کے نتیجہ میں دارالاسلام اور دالالحرب کے مسلمان ایک دوسرے کے۔ وارث نہیں ہو سکتے اور ایک دوسرے کے قانونی ولی نہیں ہو سکتے (علامہ سیعدی کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ ہندستان کے کافر سے بھی یہ لین دین جائز نہیں کہ ییاں مسلمانوں پر شرعی احکام پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اکبری ) علامہ سیعدی فرماتے ہے ہم نے جو یہ بیان کیا ہے کہ دارالحرب میں بھی سود لینا گناہ ہے اور لا ربوا بین المسلم والحربی کا مفاد یہ ہے کہ اس پر سود لینے کی دنیاوی سزا جاری نہیں ہوگی کونکہ وہ مسلمانوں کی ولائت میں نہیں ہے اس کی تائید علامہ سرخسی کی زکر کردہ ان احادیث سے ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف لکھا جس شخص نے سود لیا ہمارے اور اس کے درمیان کوئی عہد نہیں ہے اور مجوس ہجر کی طرف لکھا یا تو تم سود چھوڑ دو یا اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ قبول کر لو (المبسوط ج ۱۴ص ۵۸) نصاری نجران اور مجوس ہجر حربی تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی اپنے علاقوں میں سود لینے کی اجازت نہیں دی اور جب آپ نے حربی کافروں کو سود لینے کی اجازت نہیں دی ہے تو آپ درالاحرب کے مسلمانوں کو سود خواری کی اجازت کب دے سکتے ہے (شرح مسلم ج ۴ ص ۳۸۶)
دارالحرب کے سود کے بارے میں امام ابو حنفیہ کے قول کی وضاحت )
امام اعظم نے جو یہ کہا ہے کہ دارالحرب میں مسلمان اور حربی کے درمیان ربوا نہیں ہے ان کی بھی اس قول سے یہی مراد ہے کہ چونکہ دارالحرب مسلمانوں ولایت میں نہیں ہے اس لئے مسلمان حکام وہاں کسی مسلمان کے سود لینے پر اس سے مواخزہ نہیں کریں گے اور وہ اس کا مالک ہو جائے گا لیکن اس کا یہ فعل گناہ ہے اور وہ اس پر اخری عذاب کا مستحق ہے (سیعدی ) یہ بات بلکل واضح ہوگئی ہے کہ امام اعاظم کے نزدیک اگر دارالحرب میں رہنے والے مسلمان آپس میں سود لیں یا مسلمان حربی کافر سے سود لے تو وہ اس سود کا مالک تو ہو جائے گا لیکن سود لینے والا مسلمان بہرحال گنہگار ہوگا
[کیا سود اور دیگر عقود فاسدہ کے زریعے حربی کافروں کا مال لینا جائز ہے .۔؟]
جب مسلمان کسی کافر قوم سے برسر جنگ ہوں اس وقت کافروں کا ملک دارالحرب ہوتا اور اس وقت دارالحرب کے کافروں کی جان اور اموال مباح ہیں لیکن جن ممالک سے مسلمان برسرجنگ نہیں ہیں ان سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اور ان کے وہاں پاسپورٹ اور ویزا سے آنا جانا جاری اور معمول ہے اور ان ممالک میں مسلمانوں کو جان و مال اور عزت وآبرو کا تحفظ حاصل ہے بلکہ وہاں انھیں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی بھی آزادی ہے ایسے ملک دارالحرب نہیں ہیں بلکہ دارالکفر ہے اور ایسے ممالک کے کافروں کے اموال ان پر مباح نہیں ہے بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ کافورں کا مال مسلمانوں پر مباح ہے خواہ وہ جس طرح حاصل ہو بشرطکہ اس سے مسلمانوں کا وقار مجروح نہ ہو ان کا استدلال قرآن کی اس آیت سے ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ(النساء ۲۹) ترجمہ اے ایمان والو آپس میں اپنے اموال ناحق نہ کھاؤ الا یہ کہ تمھاری آپس کی رضامندی سے تجارت ہو) اس آیت سے یہ لوگ اس طرح استدلال کرتے ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا ہے اور اگر مسلمان کافروں کا مال ناجائز طریقے سے کھائیں تو اس سے منع نہیں کیا گیا ہے سو مسلمانوں کے لیے کفار کے اموال عقد فاسد سے یا ناجیز طریقے سے کھانا جائز ہے علامہ غلام رسول سیعدی رحمتہ اللہ علیہ فماتے ہے یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید کا عام اسلوب یہ ہے کہ اللہ تعالی مکارم اخلاق ہے مسلمانوں کو خطاب کرتا ہے لیکن اس سے قرآن مجید کا منشاء یہ نہیں ہے کہ نیکی صرف مسلمانوں کے ساتھ کی جائے اور کفار کے ساتھ سلوک میں مسلمان نیکیوں کو چھوڑ کر بدترین برائیوں پر اتر آئیں حتی کہ کفار کے نزدیک مسلمان ایک خائن اور بدکردار قوم کے نام سے معروف ہو (شرح صحیح مسلم ج ۴ ص ۳۸۸)
اللہ تعالی فرماتا ہے -وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ( سورہ النور ۳۳) ترجمہ اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کا عارضی فائدہ طلب کرو / کیا اس آیت کی روسےمسلمانوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی دارالکفر میں کافر عورتوں کا کوئی قحبہ خانہ کھول کر کاروبار کرنا شروع کر دیں ؟ اللہ اور اس کے رسول کا منشا یہ ہے کہ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے دنیا میں مسلمان ایک آیڈییل قوم کے لحاظ سے پہچانے جائیں غیر اقوام مسلمانوں کے اعلی اخلاق اور کردار کو دیکھ کر متاثر ہوں مسلمانوں کی امانت اور دیانت کی ایک عالم میں دھوم ہو کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کفار قریش ہزار اختلاف کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی پارسائی امانت اور دیانت کے مداح تھے اسلام کی تبلیغ واشاعت میں تلوار اور جہاد سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باکمال سیرت کا حصہ ہے مسلمانوں کی کفار سے لڑائی تیر و تفنگ کی نہیں اصول اور اخلاق کی لڑائی ہے اور زر زمین کا حصول نہیں بلکہ دنیا میں اپنے اصول اور اقتدار پھیلانا ہے اب اگر اس نے اپنے مکارم اخلاق ہی کو کھو دیا اور خود ہی ان اصولوں اور تعلیمات کو قربان کر دیا جس کو پھیلانے کےلیے وہ کھڑا ہوا ہے تو پھر اس میں اور دوسری قوم میں کیا فرق رہے گا اور کس چیز کی وجہ سے اس کو دوسروں پر فتح حاصل ہوگی اور کس قوت سے دلوں اور روحوں کو مسخر کر سکے گا ؟ جو لوگ دارالکفر میں حربی کافروں سے سود لینے کو جائز کہتے ہیں اور حربی کافروں کے اموال کو عقود فاسد کے ساتھ لینے کو جائز قرار دیتے ہیں وہ اس پر کیوں غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی نے یہودیوں کے اس عمل کی مزمت کی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کا حق کھانے کے لیے یہ مسئلہ گھڑا تھا کہ عرب کے امی جو ہمارے مزہب پر نہیں ہیں ان کا مال جس طرح ملے روا ہے غیر مزاہب والوں کی امانت میں خیانت کی جائے تو کچھ گناہ نہیں خصوصا وہ عرب جو اپنا آبائی وطن چھوڑ کر مسلمان بن گئے ہیں خدا نے ان کا مال ہمارے لیے حلال کر دیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے
وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىٕمًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)
ترجمۂ کنز الایمان
اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے گا اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔/ غور کجئیے جو لوگ دارالاکفر میں حربی کافروں سے سود لینے اور عقود فاسد پر ان سے معاملے کو جائز کہتے ہیں
[۔ دارالحرب دارالکفر اور دارالاسلام کی تعریفات ] شمس الائمہ سر خسی دارالحرب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک دارالحرب کی تین شرطیں ہے ایک یہ کہ اس پورے علاقے میں کافروں کی حکومت ہو اور درمیان میں مسلمانوں کا کوئی ملک نہ ہو دوسری یہ کہ اسلام کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان ،مال اور عزت محفوظ نہ ہو اسی طرح زمی بھی محفوظ نہ ہو تیسری شرط یہ ہے کہ اس میں شرک کے احکام ظاہر ہوں یہ تعریف اس ملک پر صادق آئےگی جس ملک سے مسلمان عملا بر سر جنگ ہوں اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ ہوں اور وہاں کسی مسلمان کی اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے جان و مال اور عزت محفوظ نہ فقہاء احناف نے حربی کافروں کی جان اور مال کے مباح ہونے کی جو تصریح کی ہے اس سے اسی دراالحرب کے باشندے مراد ہے کافروں کے وہ ملک جن سے مسلمانوں کے سفارتی تعلقات ہیں تجارت اور دیگر انواع کے مہدات ہیں پاسپورٹ اور ویزے کے ساتھ ایک دوسرے کے ملک میں آتے جاتے ہیں مسلمانوں کی جان مال اورعزت محفوظ ہے بلکہ مسلمانوں کو وہاں اپنے مزہبی شعائر پر عمل کرنے کی بھی آزادی ہے جیسے امیریکہ برطانیہ وغیرہ ممالک یہ ملک درالحرب نہیں ہیں بلکہ درالکفر ہیں فقہاء احناف نے اسلامی احکام پر عمل کرنے کی آزادی کے پیش نظر ایسے ملکوں کو دارالاسلام کہا ہے لیکن یہ حکما دارالاسلام ہیں حقیقتا دارالکفر ہیں دارالاسلام وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور شائر اسلامی اور احکام اسلامیہ کا غلبہ ہو
دارالحرب وہ علاقہ جہاں کافروں کی حکومت ہو اور کفر کے احکام کا غلبہ ہو اور کسی مسلمان کو اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے جان ،مال اور عزت کا تحفوظ حاصل نہ ہو اسی طرح زمی کو بھی نہ ہو
دارالکفر وہ علاقہ جہاں کافروں کی حکومت ہواس علاقے کے ساتھ مسلمانوں کے سفارتی تعلقات ہوں مسلمان وہاں تجارت کے لیے جاتے ہوں مسلمانوں کو وہاں جان مال اور عزت کا تحفوظ حاصل ہو اور احکام اسلامیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو
ان تعریفات کے امریکہ برطانیہ کینڑا اور (ہندسان) جہاں مسلمان امان سے رہتے ہے یہ سب دارالاکفر ہیں یہاں جمعہ اور عیدین پڑھنا جائز ہے اور یہ ممالک دارالحرب نہیں ہیں اس لیے یہاں مسلمانوں کے لیے سود کا لین دین کسی طرح سے جائز نہیں ہے اسی طرح یہاں کے کافر کا مال عقود فاسدہ سے لینا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ فقہاء احناف نے درجہ کراہت میں کافروں کے مال لینے کو جائز کہا ہے تو دارالحرب میں کہا ہے اور یہ ممالک دارالحرب نہیں ہیں فقہاء نے ایسے ممالک پر مجازا دراالحرب کا بھی اطلاق کیا ہے اور مجازا دارالاسلام کا بھی اطلاق کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ممالک درالکفر ہیں دارالحرب ہے نہ دارالاسلام (شرح صحیح مسلم جلد ۴ ص ۳۹۲) خلاصہ کلام اس پوری بحث سے یہ معاملہ صاف ظاہر ہوگیا کہ ہندستان کے کفار کے ساتھ بھی سودی لین دین جائز نہیں ہے
فتویٰ سے رجوع کا اعلان – ایک ضروری وضاحت
بقلم: فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء گلزارِ طیبہ
الحمد للّٰہ! کچھ عرصہ قبل میں نے "دارالحرب" میں کفارِ حربی سے سود لینے کے جواز پر ایک فتویٰ دیا تھا، جو فقہ حنفی کی معروف عبارتوں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر مبنی تھا۔ تاہم، حالاتِ زمانہ، سوشل میڈیا کے اثرات، اور غیر مسلموں میں پھیلنے والی غلط فہمیوں نے مجھے اس موضوع پر مزید غور و خوض پر مجبور کیا۔
اس ضمن میں میں نے علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی تحقیق کا باریک بینی سے مطالعہ کیا، جو نہایت متوازن، عمیق اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ اُن کی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض متقدّمین فقہاء نے دارالحرب میں سود کو بعض شروط کے ساتھ جائز کہا، لیکن موجودہ حالات میں اس کی اجازت دینا شرعی مصالح کے خلاف اور دعوتِ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
فی زمانہ ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب ملک میں جب اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ پہلے ہی سرگرم ہیں، ایسے میں سود جیسے حساس مسئلے پر جواز کا فتویٰ دینا نہ صرف غیر مسلموں کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے، بلکہ اسلام کی اقتصادی شفافیت کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔
لہٰذا میں، بحمد اللہ و توفیقہ، اپنے سابقہ فتویٰ سے رجوع کرتا ہوں، اور اس وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی تحقیق کو قابلِ قبول و قابلِ عمل قرار دیتا ہوں۔ میں تمام اہلِ علم و فتویٰ سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ بھی حالاتِ حاضرہ کی نزاکت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسے فتاویٰ میں مزید احتیاط برتیں تاکہ اسلام کا جمال اور اس کی حکمتِ دائمی متاثر نہ ہو۔
واللّٰہ الموفق والمعین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں