فتویٰ نمبر: 057/1446
تاریخ: 05 شوال 1446ھ / 05 مئی 2025ء
سوال:
کیا دیوبندی لڑکا یا لڑکی کا سنی (اہلِ سنت و جماعت) لڑکی یا لڑکے کے ساتھ نکاح جائز ہے؟ نیز اگر دیوبندی کا نکاح سنی امام نے پڑھا دیا ہو تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح و مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔
سائل: مولانا شاداب صاحب، مقیم: ٹاکودی چانڑسماں، ضلع پاٹن، گجرات (بھارت)
الجواب وباللّٰہ التوفیق
دیوبندی اکابر کی بعض تحریروں میں ایسے کفریہ اور گستاخانہ عبارات موجود ہیں جن کی بنا پر فتویٰ حسام الحرمین میں ان پر حکمِ کفر و ارتداد لگایا گیا ہے، مثلاً:
تحذیر الناس صفحہ 3، 14، 28
براہینِ قاطعہ صفحہ 51
حفیظ الایمان صفحہ 8
ان عبارات کے قائلین اور ان کے عقائد کو حق سمجھ کر ماننے والے کافر و مرتد ہیں، اور مرتد کا نکاح نہ کسی مسلمان سے جائز ہے، نہ کسی کافر سے۔ چنانچہ:
فتاویٰ برکاتیہ صفحہ 324 میں ہے:
"مرتد کا نکاح مرتدہ، مسلمہ اور کافرہ سے جائز نہیں۔"
البتہ واضح رہے کہ:
ہر دیوبندی مردت نہیں ہوتا اور جب تک کسی فردِ معین سے کفریہ عقائد کا اقرار ثابت نہ ہو، تب تک اس پر حکمِ کفر نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن چونکہ یہ فرقہ گمراہ ہے، اس لیے ان کے ساتھ شادی بیاہ سخت خطرے کا باعث ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "بدمذہب اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرو، مر جائے تو جنازے میں شرکت نہ کرو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھو، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو۔"
(مسند امام اعظم، صفحہ 23)
لہٰذا:
1. سنی لڑکے یا لڑکی کا دیوبندی سے نکاح ناجائز و ممنوع ہے، چاہے وہ امام نکاح کے وقت لاعلم ہو۔
2. اگر نکاح ہو چکا ہو، تو دیوبندی فریق کے عقائد کی تحقیق کی جائے:
اگر کفریہ عقائد پر قائم ہو تو نکاح باطل ہے، اس کا اعلان کرنا اور علیحدگی لازم ہے۔
امام نے لاعلمی میں نکاح پڑھایا ہو تب بھی نکاح کا ہدیہ واپس کرنا ہوگا۔
خلاصہ:
عقائد میں پاکیزگی اور سچائی ہی نکاح کے دوام کی بنیاد ہے۔ بدعقیدہ فرقے سے نکاح دینی، ایمانی اور معاشرتی فساد کا باعث ہے۔ سنی مسلمان کو ہر حال میں سنی العقیدہ ہم نوا شریکِ حیات تلاش کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
خادمِ دارالافتاء گلزارِ طیبہ
الفقیر الیٰ رحمۃ ربہ، مفتی ابو احمد ایم جے اکبری
تاثرات مولانا علی بخش صاحب اکبری خادم دارالافتاء گلزار طیبہ تھر باڑمیر راجستھان
یہ فتویٰ اہلِ سنت و جماعت بریلوی مسلک کے موقف کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں بعض دیوبندی علماء کی تصنیفات میں موجود عبارات کو کفریہ قرار دے کر ان کے ماننے والوں پر بھی فتویٰ کفر یا گمراہی کا اطلاق کیا گیا ہے، بشرطیکہ وہ ان عبارات کو حق جانے اور اس پر قائم بھی ہو۔
فقہی لحاظ سے چند اہم نکات:
1. کفریہ عقائد اور نکاح:
اگر کوئی شخص واقعی کفریہ عقائد رکھتا ہے تو اس کے ساتھ مسلمان کا نکاح قطعاً جائز نہیں، جیسا کہ فتاویٰ برکاتیہ وغیرہ میں وضاحت کی گئی ہے۔
2. ہر دیوبندی پر حکم نہیں لگایا جا سکتا:
مفتی صاحب نے احتیاط سے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ "ہر دیوبندی پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک اس کے عقائد کی تحقیق نہ ہو" — یہ ایک علمی اور شرعی اصول ہے، جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے: "ولا تزر وازرة وزر أخری"۔
3. بدعقیدہ یا گمراہ فرقہ کے ساتھ نکاح:
اگر کوئی فرقہ اہل سنت کے متفقہ عقائد سے ہٹ کر باطل نظریات پر قائم ہو، تو اس کے ماننے والے سے نکاح جائز نہیں۔ مسند امام اعظم والی روایت بطور تاکید ذکر کی گئی ہے۔
4. سنی امام کا نکاح پڑھانا:
اگر امام کو علم نہیں تھا کہ جس شخص کا نکاح پڑھا جا رہا ہے وہ بدعقیدہ ہے، تو نکاح صحیح ہوگا بشرطیکہ دونوں کے عقائد درست ہوں۔ اگر بعد میں تحقیق سے واضح ہو کہ وہ شخص کفریہ عقائد رکھتا ہے، تو نکاح کی تجدید یا فسخ کی ضرورت ہوگی۔
خلاصہ:
یہ فتویٰ سخت مگر دلائل پر مبنی ہے۔ سنی مسلمان کو عقائد کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے، خاص طور پر نکاح جیسے اہم معاملے میں۔ ہر دیوبندی پر فورا فتویٰ نہ لگایا جائے، لیکن اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ وہ کفریہ عقائد رکھتا ہے تو اس سے نکاح قطعاً ناجائز ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں