وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
السائل: محمد علی عطّاری، موربی (گجرات)
آپ کا سوال نہایت عمدہ ہے، اس کا جواب فقہی اصولوں اور تلفظ کے قواعد کی روشنی میں تفصیل سے دیا جا رہا ہے:
---
╔════════════════════════════╗
دارالافتاء گلزارِ طیبہ – گجرات (بھارت)
Dār al-Iftā Gulzār-e-Ṭayyibah – Gujarat, India
╚════════════════════════════╝
فتویٰ نمبر: GT-AZN-034 │ تاریخِ اجرا: 14 ذو القعدہ 1446ھ / 13 مئی 2025ء
سوال:
اذان میں جب "حی علی الصلوٰۃ" اور "حی علی الفلاح" کہا جاتا ہے تو کچھ مؤذن "ی" کو کھینچ کر (لمبا کر کے) پڑھتے ہیں، اور کچھ بغیر کھینچے پڑھتے ہیں۔ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ درست طریقہ کیا ہے؟
---
جواب:
"حَیِّ عَلَی الصَّلَاةِ" اور "حَیِّ عَلَی الفَلَاحِ" میں "حَیِّ" کا تلفظ تشديد اور مد (کھنچاؤ) کے ساتھ ہونا چاہیے، کیونکہ:
1. لفظ "حَیِّ" دراصل "حَیّ" سے ہے، جس میں "ی" پر تشدید ہے۔
2. تشدید کا مطلب ہے کہ حرف کو دو بار کی مقدار میں ادا کیا جائے – یعنی "ی" کو واضح اور مکمل ادا کیا جائے۔
3. لہٰذا اس میں "ی" کو معمولی سا کھینچنا (یعنی وضاحت سے ادا کرنا) درست ہے،
لیکن غیر ضروری طور پر بہت زیادہ کھینچنا (لمبا مد کرنا) مکروہ ہے۔
---
دو غلطیاں جو بعض مؤذنین کرتے ہیں:
1. "ی" کو مکمل چھوڑ دینا یا ہلکا پڑھنا:
یہ تلفظ کی غلطی ہے، کیونکہ اس سے تشدید ضائع ہو جاتی ہے۔
2. "ی" کو بہت زیادہ کھینچنا، جیسے "حَیـــیِّ":
یہ بھی درست نہیں، کیونکہ اذان میں مبالغہ آمیز آواز یا غنائیت ممنوع ہے۔
---
صحیح طریقہ:
"حَیِّ" کو اس کی اصلی عربی تلفظ کے مطابق پڑھا جائے:
"حَیِّ" = حَ + یّ (تشديد کے ساتھ لیکن بغیر غیر شرعی کھنچاؤ کے)
---
دلائل:
قرآن میں تلفظ کی حفاظت کے اصول
حدیث شریف: «المؤذنون أطول الناس أعناقًا يوم القيامة»
فقہائے کرام کے اقوال: اذان میں الفاظ کا تلفظ شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
---
خلاصہ:
| طریقہ | حکم | وضاحت | |--------|--------|----------| | "ی" کو تشدید کے مطابق واضح پڑھنا | واجب | اصل عربی کا تقاضا | | "ی" کو چھوڑ دینا یا ہلکا کرنا | مکروہ | تشدید ضائع ہوتی ہے | | "ی" کو غیر ضروری لمبا کھینچنا | مکروہ | اذان میں غنائیت ممنوع ہے |
---
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
✒ مفتی ابو احمد ایم جے اکبری
(دارالافتاء گلزارِ طیبہ، گجرات)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں